پاکستان میں لگ بھگ ١٠٠٠ ادویہ ساز ادارے موجود ہیں جن میں سے تقریباً ٧۵٠ پیداواری ادارے ہیں جبکہ باقی درآمدی ادارے ہیں جو دوائیں درآمد کرکے یہاں صرف مارکیٹنگ کرتے ہیں۔ ٧۵٠ میں سے ٦٠٠ کے قریب ادارے کراچی ١٠٠ لاہور اور بقیہ اسلام آباد پشاور میں موجود ہیں۔ ان ٧۵٠ اداروں میں سے صرف ۱۵ کے قریب ملٹی نیشنل ادارے ہیں ایک زمانے میں یہ قریباً سو کے قریب تھیں لیکن پھر عالمی کساد بازاری کی وجہ سے کچھ تو آپس میں ضم ہوتی گئیں جبکہ بقیہ اپنے ادارے لوکل انڈسٹری کو بیچ کر جاتی رہیں۔ اس عمل کی وجہ وہ پالیسیاں تھیں جو پاکستان کے کرپٹ اداروں میں رائج تحیں اور ہیں۔
یہ ادارے اپنی سیلز سرگرمیاں اپنی فیلڈ فورس کے ذریعے کرتے ہیں وہ اپنی دوا جس کو مارکیٹ کرتے تھے اس کے پروڈکٹ ریمائنڈر دیتے کبھی پریسکرپشن سلپ یا کیلنڈر دیتے تھےپھر دوسرا دور آیا جس میں ڈاکٹرز کو انکے استعمال کی چیزیں مثلاً بلڈ پریشر ناپنے کے آلات، تھرما میٹر، استھیٹو اسکوپ وغیرہ دیا جانے لگے۔ پھر بات بڑھ کر کلینک کی تزئین ؤ آرائش تک گئی جس میں لاکھوں کا خرچہ آتا، اسکے بعد بچوں کی شادیاں ولیمے بھی اسپانسرز ہونے لگے، پھر جہاز بھر بھرکر بنکاک میں عیاشیاں کرائی گئیں جب ہر چیز سے دل بھر گیا تو اب بات آگئی ہے کیش پر۔ ان فی پیک کمیشن طئے ہوجاتا ہے کہ ایک پیک پر قیمت کے حساب سے کتنا کمیشن ڈاکٹر کو ملیگا۔یہ اب ڈاکٹر کی پریکٹس پر منحصر ہے کہ وہ کتنا کما سکتا ہے۔ دن میں سو پیشینٹ دیکھنے والا ڈاکٹر دن میں با آسانی پچاس ہزار تک کما سکتا ہے اور کماتا ہے۔
اس گھٹیا اور غلیظ کام کا آغاز ہماری لوکل کمپنیوں نے کیا اور غیر ملکی کمپنیاں اس طرح رشوتیں نہیں کھلا سکتی لہذا وہ آہستہ آہستہ اس ملک سے جا رہی ہیں ہیں جو موجود ہیں وہ اپنی ریسرچ ادویات کی وجہ سے کما رہی ہیں کہ یا تو انکا متبادل موجودنہیں یا اس معیار کا نہیں۔ اس تحریر کا مقصد ادویہ ساز اداروں اور ان ڈاکٹرز کا گٹھ جوڑ سامنے لانا ہے جسکی وجہ سے پیشینٹ متاثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز ایک طرح سے ان ادویہ ساز اداروں کے سلیپنگ پارٹنرز بن گئے ہیں۔ اب ایک معیاری دوا 10 روپے کی ہے بنا ڈاکٹر کے کمیشن اوراسی فارمولے کی دوسری غیر معیاری دوا 100 کی ہے اور اس سے ڈاکٹر کو 30 روپے ملتے ہیں تو وہ آپکو غیر معیاری دوا لکھے گا۔ ایک اور کام جو آجکل ڈاکٹر کرتے ہیں آپ کسی مرض کیلیے چلے جائیں وہ آپکو ایک مشہور کمپنی کی معدہ کی دوا لکھ کر دے گا انکا کہنا یہ ہوتا ہے کہ دوائیں کھا کرآپکا معدہ خراب ہوگا اس لیے یہ لازمی لیں۔ اس دوا کی فی گولی قیمت اٹھائیس روپے ہے اب آپ اندازہ لگائیے کہ دن میں کتنی گولیاں بکتی ہونگی اور اسکا منافع کہاں کہاں پہنچتا ہے، اب مریض کو ضرورت ہے یا نہیں یہ دوا دی جائیگی، اسی طرح کچھ ڈاکٹر صاحب ہر مریض کو ملٹی وٹامن دیتے ہیں جنکی ہر دفعہ ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ ایک ڈاکٹر صاحب تو ایسے بھی ہیں کہ کو مریض کو ایک ہی مالیکیول دو الگ کمپنی کا دیتے ہیں صبح کیلیے الگ کمپنی رات کیلیے الگ۔ اب بیچارہ جو واقفیت نہیں رکھتا اسے کیا پتہ کہ ڈاکٹر صاحب اسکے ذریعے دونوں کمپنیوں سے چیک وصول کر رہے ہیں۔
دواؤں کی ایک قسم اینٹی بایوٹک ہوتی ہے جو بیکٹیریا کے ذریعے لگنے والی بیماریوں (بیکٹیریل انفیکشن) میں دی جاتی ہیں، اس وقت ان دواؤں کی چار مختلف درجہ بندی ہیں جسکو جنریشن کہا جاتا ہے۔ اب اسکا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے درجے کی دوا دی جاتی کچھ عرصہ استعمال کے بعد اس مالیکیول کے خلاف جسم میں مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے پھردوسرا درجہ استعمال ہوتا ہے پھر نوبت چوتھے تک پہنچتی ہے اور ایک بار جس درجے کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجائے تو پھر وہ اسکے یا اس سے نیچے کے درجوں سے صحیح نہیں ہوتا۔ اب ہمارے ڈاکٹرز کرتے یہ ہیں کہ صرف اپنی واہ واہ کیلیے کہ ہمارے مریض پہلی خوراک میں ٹھیک ہوجاتا ہے براہ راست چوتھے درجے کیاینٹی بایوٹک دے دیتے ہیں نتیجہ یہ کہ اب پہلے تین درجے اثر نہیں کریں گے، اور چوتھے کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی تو پھر اب کوئی دوا اثر نہیں کریگی۔ جسکے نتیجے میں اگلی بار وائرس کا حملہ شدید، عرصہ دراز پر محیط اور جان لیوا ہوسکتا ہے۔ اس وقت جس بیدردی سے ہمارے ڈاکٹر اس نسل کو تباہ کر رہے ہیں شائید غیر معیاری کھانے بیچنے والے نہیں کر رہے۔
اب آجائیں ایسے ڈاکٹرز کی کمائی پر۔ چوتھے درجے کی اینٹی بایوٹک کسی بھی کمپنی کی اوسطاً تیس روپے فی گولی سے کم نہیں، سات گولیوں کا کورس کے حساب سے ۲۱۰ روپے فی پیشینٹ بیس فیصدی کے حساب سے ایک مریض سے بیالیس روپے کا کمیشن صرف ایک دوا پر جبکہ اوسطاً تین دوا دی جاتی ہیں اس حساب سے ایک ڈاکٹر کم از کم اپنی فیس کے علاوہ سو روپے فی مریض کما رہا ہے، سو پیشینٹ پر اندازہً ۱۰۰۰۰ ہزار روپے روزانہ صرف کمیشن کی مد میں کما رہا ہے۔ یہ کمشن ۵۰۰۰۰ روزانہ تک بھی ہے اگر کنسلٹنٹ ہے کیونکہ اسکا کمیشن ریٹ زیادہ ہے اورپیشینٹ کا آوٹ پٹ بھی۔
ان ڈاکٹرز نے مسیحائی کے اس مقدس پیشے کو نیہائیت گھناؤنا بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انکے چنگل سے بچائے لیکن حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ڈاکٹرز پر گرفت کر کے اس طرح کے کمیشنوں سے جان چھڑائے تو دواؤں کی قیمت موجودہ قیمت سے آدھے پر ویسے ہی آجانی ہےکیونکہ ادویہ ساز ادارے یہ کمیشن بحر حال ہم سے ہی نکال کر دیتے ہیں۔
تحریر: علی مرتضی ہاشمی
https://twitter.com/ali_MurtazaHash
علی مرتضی ہاشمی
ضروری نوٹ
الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔
Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com
Add Comment