پاکستان سے

پاکستان کا پہلا صدر


پاکستان کا پہلا صدر

میجر جنرل سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر جبکہ چوتھے اور آخری گورنر جنرل تھے۔ سکندر مرزا معروف میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ سکندر مرزا 13 نومبر 1899ء کو مرشد آباد بنگال میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سکندر مرزا پاکستان کی وزارتِ دفاع کے پہلے سیکرٹری نامزد ہوئے۔ مئی 1954ء میں مشرق پاکستان کے گورنر بنے، اس کے بعد ان کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمہ جات بھی ان کے سپرد کردئے گئے۔ گورنر جنرل پاکستان ملک غلام محمد کی خرابیِ صحت کیوجہ سے 6 اگست 1956ء کو پاکستان کے قائم مقام گورنر جنرل بنے۔ آئینِ پاکستان وجود میں آنے کے بعد 5 مارچ 1956ء کو پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اور 23 مارچ 1956ء کو باقاعدہ صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اور گورنر جنرل کا عہدہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔ اکتوبر 1958ء میں ملک کے سیاسی حالات ابتر ہوئے۔ اسی پاداش میں 7 اکتوبر 1958ء کو صدر سکندر مرزا نے حکومت ختم کرنے، اسمبلیاں توڑنے اور ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ جنرل ایوب خان نے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا جس پر صدر سکندر مرزا نے 24 اکتوبر 1958ء کو انہیں وزیراعظم پاکستان بنادیا۔ سیاسی بحران کے سبب 7 اکتوبر 1958ء کو پہلا ملک گیر مارشل لاء نافذ ہوا۔ جبکہ اس کے ٹھیک 20 دن بعد 27 اکتوبر 1958ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے انہیں بر طرف کرکے جلاوطن کیا۔ جس کے بعد سکندر مرزا نے اپنی زندگی کا باقی عرصہ لندن کے ایک ہوٹل میں گزارا۔ ایوب خان کی صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد سکندر مرزا نے وطن واپس آنے کی کوشش کی لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی۔ سکندر مرزا افسر شاہی اور فوج کے منظورِ نظر شخصیت تھے۔ اسلئے ملک کو جمہوریت سے آمریت کی طرف دھکیلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ صدر کے عہدے پہ تاحیات قابض رہے۔ اسلئے انہوں نے سیاستدانوں کا ایسا گروہ تیار کیا کہ ان کے ایک اشارے پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی۔ انہوں نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں 5 وزرائے اعظم کو الزامات لگا کر عہدوں سے ہٹایا۔ جن میں وزیر اعظم محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور ملک فیروز خان نون شامل تھے۔ جس طرح انہوں نے باقی لوگوں کی حکومتیں ختم کی بالکل اسی طرح ان کے لائے گئے فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں ان کی اپنی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا تھا، اور جلاوطن ہوئےتھے۔ اپنی بیماری کے آخری ایام میں اپنی شریکِ حیات ناحید مرزا کو یہ کہہ کر علاج سے منع کردیا کہ “اب ہم علاج کا خرچہ نہیں اٹھاسکتے اسلئے مجھے مرنے دینا”۔ 3 نومبر 1969ء کو انہوں نے دل کے عارضے کیوجہ سے وفات پائی۔ اس وقت کے صدر پاکستان جنرل یحیٰی خان نے ان کی میت پاکستان لانے اور دفنانے سے منع کردیا، یہاں تک کہ ان کے عزیز و اقارب کو بھی جنازے میں شرکت سے منع کردیا۔ پاکستان کے منع کرنے کے بعد ایران کے بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے خصوصی طیارے کے ذریعے سکندر مرزا کی میت تہران پہنچانے کی ہدایت کی۔ ان کے میت کو سرکاری اعزاز کیساتھ دفنانے اور سینکڑوں عہدیداران کو جنازے میں شریک ہونے کا حکم دیا۔ انہیں تہران کے شاہی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ہے۔ یہ تھی پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر کی کہانی۔

کالم نگار: اعجاز احمد پاکستانی

Twitter Handle:

Website | + posts

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

اعجاز احمد پاکستانی

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.