معاشرہ

قاتل

Qatil
Murderer

 انسانیت قضا کر کے_____! لوگ مصلے اٹھاۓ پھرتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ تنہائی میں بیٹھو تو خیالات پوری کائنات کا سفر طے کرنے پہ كمربستہ ہو جاتے ہیں کہتے ہیں نہ کہ تنہائی انسان کو خود سے آگہی دینے کے ساتھ ساتھ بہت سے اور رازوں سے بھی آشنا کر دیتی ہے۔۔۔! رات معمول کے مطابق ہی تھی، فراغت پائی تو بستر پہ لیٹتے ہی ذہن نے پورے دن کے مناظر کو نظروں کے سامنے سے گزارنا شروع کر دیا یہ روز کا معمول تھا۔ بستر پہ لیٹتے ہی ذہن مختلف سوچوں کی اماجگاه بن جاتا۔ لیکن آج ایک الگ ہی بےچینی تھی، ایک بے قراری سی جو سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔ سوچتے ہوئے اچانک ایک منظر ذہن میں روشن ہوا اور مانو وقت نے مجھے پھر سے اسی منظر کا حصہ بنا دیا۔ منظر آفس سے نظر آتی سڑک کا تھا ، دائیں طرف پارک اور بائیں جانب ترتیب سے بنی اونچی اونچی امارتیں، آج کے انسان کی دولت اور جاہ و حشمت کو ظاہر کرتیں، مخلصی ، دوسروں کے درد اور سب سے بڑھ کر انسانیت کو اپنی بنیادوں تلے دفن کرتی امارتیں۔ ہاں وہ منظر….! ذہن بار بار اسی منظر کی طرف سفر کر رہا، وہی منظر جس نے اس وقت سے لے کر اب تک مجھے بے چین رکھا، ایک عورت پرانے رنگ اڑے کپڑوں میں ملبوس، پھٹی چادر اوڑھے، الجھے بال چہرے پہ چپکے، پیر جوتوں کی قید سے آزاد، ایک چھوٹی سی بچی الجھی بکھری حالت میں اس عورت کے ساتھ ایک عجیب سی کیفیت دکھی اس عورت کی آنکھوں میں یوں جیسے ایک شخص اپنی عمر بھر کی پونجی لٹا کر تہی دست و تہی دامن اپنی حالت پہ ماتم کناں ہو ایک شخص سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے کے پاس جا کر ہاتھ جوڑتی، کچھ لفظ اس کے منہ سے ادا ہوتے ، لوگ سنتے ، بات پوری ہونے سے پہلے ہی نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتے، منظر دیکھتے کچھ پل کو دل ملال میں گھرا، اندر سے آواز آئی ، اٹھو اس عورت کو مدد چاہیے، جانو کیا مجبوری ہے جو اسے گھر سے باہر یوں غیروں کے سامنے ہاتھ جوڑنے پہ مجبور کر گئی، ہاہ پاگل انسان، نظروں کے سامنے ہی تو تھا سب، مگر کچھ دیر بعد لاکھوں کا منافع دینے والی میٹنگ پر دھیان ہونے کی وجہ سے اس عورت کا درد معنی نہیں رکھتا تھا پیسے کی بھوک اس عورت کے دکھ سے لا پرواہ کر گئی تھی، سر جھٹک کر سامنے پڑی فائل اٹھا لی یہ بے چینی کیسی؟ ایسا لگتا ہے جیسے انسانیت کو قضا کر بیٹھا ہوں، ہاں قضا تو کر دی گئی انسانیت آہ یہ احساس گناہ کیسا؟ کیوں ؟ میں نے کچھ نہیں کیا پھر یہ بے چینی کیوں؟ اندر سے کچھ کٹ رہا آنکھیں بند کی منظر بدلا وقت بھی، ہاں صبح کی سفیدی رات کی سیاہی میں بدلی ، کوئی بچہ رو رہا تھا شاید، کوئی عورت بے سدھ خون میں لت پت پڑی تھی ، آنکھوں میں شناسائی اتری پھر بے یقینی ، یہ زندہ تھی ، اسے بولتے دیکھا تھا مگر سامنے پڑی عورت اب بول نہیں رہی تھی نہ ہاتھ بندھے تھے، جن آنکھوں میں۔ وحشت تھی ، التجا تھی ، تڑپ تھی اب وہ آنکھیں بند تھیں، ہاں وہ مر گئی تھی قدموں نے فاصلہ طے کیا ، گاڑی تک پہنچا، گھر آ گیا…..! اب جو ضمیر نے جھنجھوڑا تو آواز آئی” قاتل ” ہاں ایک ہی آواز تم قاتل ہو ، اس عورت کے ، اس بچی کی خوشیوں کے ، نہیں بلکہ انسانیت کے قاتل ہو تم۔۔۔۔! اپنے اندر کے انسان کے قاتل ہو یہاں بات ایک ہی ہے کہ آج کا انسان خدا بننے کی تگ و دو میں یہ بات بھول گیا ہے کہ وہ اس کوشش میں اپنی انسانیت بھی کھوتا جا رہا ہے ، دولت کی ہوس میں دوسروں کو قدموں تلے روندتا خود کو انسان کے درجے سے گرا چکا ہے کہیں یہ دولت کی ہوس انسان کے خونی رشتوں کے خون کرتی ہے تو کہیں کسی کمزور سے اس کا ہر سہارا چھین لیتی ہے، کہیں یہ بھوک نظروں کے سامنے ہوتے گناہ کو روکنے سے بھی بے بہرہ کر دیتی ہے تو کہیں کسی معصوم سے اس کا سہارا چھین کر اسے گداگر بننے پہ مجبور کر دیتی ہے مختصراً آج کا انسان قاتل ہے انسانیت کا اور افسوس ان کو پوچھنے والا احساس دلانے والا کوئی نہیں ، حتی کہ ضمیر بھی مر چکے ہیں ، لیکن اس موت پر رونے والا کوئی نہیں ! افسوس ہے آج کے انسان پہ جو صرف خسارے میں ہے اور اسے اس خسارے کی خبر ہی نہیں…! خط جو میں نے لکھا انسانیت کے نام پر ڈاکیا ہی مر گیا پتا پوچھتے پوچھتے

@samiamjad715

Website | + posts

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

Sami Amjad

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.