گاؤں کی زندگی بہت مزے کی زندگی ہوتی ہے جن حضرات کا تعلق گاؤں سے ہے یا ان کا آنا جانا ہوتا ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے۔
صبح سویرے اٹھنا ، رات کو جلدی سونا ، وقت پر کھانا کھانا اور دوست احباب کا مل کر بیٹھنا۔ سب سے بڑی بات یہ ہوتی کہ پورا گاؤں ایک دوسرے کو جانتا ہے کہیں بھی آپ کو کوئی بھی ملے آپ اس سے اچھا وقت گزار سکتے ہیں ۔
پورا گاؤں ایک دوسرے کی خوشی میں ایسے شریک ہوتا ہے جیسے اس کے اپنے گھر کی خوشی ہو اور تکلیف میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہی کھڑے ہوتے جیسے انکی اپنی تکلیف ہو۔
میرا تعلق بھی ضلع جہلم کے ایک گاؤں سے ہے حصولِ معاش کی خاطر ۲۰۱۲ میں گاؤں چھوڑنا پڑا اور سعودی عرب میں مقیم ہو گیا۔
پردیس میں جب کوئی جاتا ہے تو وہ سوچ کر جاتا ہے کہ بس دو سال میں اپنی ضرورتیں پوری کر کہ واپس چلا جائے گا پر ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے پردیس ایک ایسی دلدل ہے جس میں ایک قدم آپ اپنی مرضی سے رکھتے ہو پھر یہ خود آپکو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
خیر میں بھی دو سال کا خواب لیے ہوئے آیا اور پہلی دفعہ ہی ساڑھے تین سال بعد واپس گیا۔
ان ساڑھے تین سالوں میں کافی کچھ بدلہ ہوا نظر آیا
گاؤں کافی ترقی کر چکا تھا لیکن گاؤں سے کافی لوگ شہر منتقل ہو چکے تھے۔ اس دوران چند تقریبات پر لوگ کچھ دنوں کے لیے گاؤں آئے چند دن کافی چہل پہل تھی گاؤں میں وہی پہلے جیسی رونقیں لیکن کچھ دنوں بعد سب واپس جانے لگے تو وہ رونقیں بھی کم ہونے لگیں ۔
چند ماہ کی چھٹی تھی گزر گئی اور میں بھی واپس سعودی عرب چلا گیا اور پھر مزید تین سال بعد پاکستان کا رخ کیا لیکن اب کی بار بہت تبدیلی آ چکی تھی گاؤں تقریباً خالی تھا ذیادہ تر لوگ شہر میں منتقل ہو چکے تھے زیادہ تر لوگوں نے اپنے گھر شہر میں ہی بنا لیے تھے یہ چھٹی میری شہر اور گاؤں کے درمیان ہی گزری کبھی کسی دوست کو ملنے جانا پڑتا کبھی کسی رشتہ دار کو اور پھر واپس گاؤں آنا بس یہی مصروفیت رہی۔
اس سارے وقت میں ایک چیز جو میں نے محسوس کہ لوگ تبھی گاؤں واپس آئے جب کوئی فوت ہو جاتا اگر کوئی گاؤں میں فوت ہوتا تو سب لوگ گاؤں آتے جنازہ ادا کیا تدفین کے بعد واپس چلے جاتے ۔
اگر کوئی شہر میں فوت ہو گیا تو اسکی نعش کو گاؤں لا کر دفن کرنا اور پھر واپس شہر چلے جانا۔
میں بھی ان حالات کو دیکھ کر واپس آ گیا اور یہ سوالات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔
وہ دن کب آئے گا جب ہم گاؤں کے قبرستان کی بجائے گاؤں کو آباد کریں گے؟
ہم نے اپنے مسکن کو بس اپنا مدفن ہی کیوں بنا دیا۔؟
ہمارا وہ گاؤں جس نے ہمیں پہچان دی جہاں لوگ ہمیں ہمارے نام اور نسب سے جانتے ہیں جہاں ہم نے اپنا بچپن گزارہ ہم نے اس گاؤں کو آباد کرنے کی بجائے اسکی گود میں بس اپنا مردہ جسم کیوں رکھ دیا۔
ساری زندگی تو ہم گاؤں سے دور رہ کر گزار دیتے ہیں پھر یہ خواہش کیوں ہوتی کہ ہمارا مدفن اپنوں کے پاس ہو یہ خواہش ہماری زندگی میں کیوں نہیں ہوتی کہ ہماری زندگی اپنوں کے پاس گزرے۔؟
تحریر ؛ طیب شبیر
@Tayyib_Shabbir
ضروری نوٹ
الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔
Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com
Add Comment