اکثر چند سوال ذہن میں گونجتے رہتے ہیں کہ کیا ہم واقعی قوم ہیں؟
کیا ہماری اخلاقایات اتنی اعلی پائے کی ہیں کہ ہمیں مہذب قوم کہا جا سکے؟
ہم ہجوم سے قوم تک کا سفر کب تک طے کر لیں گے؟
یہ وہ سوال ہیں جو ہر باضمیر انسان کا ضمیر سوچنے پہ ضرور مجبور کرتا ہوگا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد کچھ ایسا رونما ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے رویوں پہ شرم آنے لگتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا چونکہ کافی شدت سے اثر انداز ہوا ہے جہاں ہم سوشل میڈیا کا بہترین استعمال کر کے فائدہ اٹھا سکتے تھے وہیں ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے خبر کو خوب لگی لپٹی کر کے پھیلانا اہم فریضہ سمجھا۔ کہا جاتا ہے جس کا کام اسی کو ساجھے مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی خبر ہو گی بہت سے صارف جن کو تحقیقاتی صحافت کی الف بھی معلوم نہیں ہوگی وہ اس خبر کو پھیلا رہے ہونگے۔ چونکہ فالوورز لائکس بڑھانے کا چکر میں اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالنا اب روزانہ کی مشق بن چکا ہے۔ ہمیں حال ہی میں یہی رویہ نظر آیا جب پاکستان کے مشہور موٹیویشنل سپیکر اور استاد محترم قاسم علی شاہ صاحب کی چند تصاویر وائرل ہوئیں اور ان پر جس طرح کے کیپشنز لکھے گئے پڑھ کر ذہن میں یہ یہ خیال پختہ ہوتا گیا کہ ہم واقعی قوم نہیں ہجوم ہیں۔
جس شخص نے اصلاح معاشرہ کا بیڑہ اٹھایا ہو اور جس کی وجہ شہرت بھی اتنی شاندار ہو ایسے شخص سے منسوب کسی ایسی غیر اخلاقی خبر کی تحقیق کر لینا ہم گوارا نہیں کرتے بلکہ اپنی نا سمجھی کو ایک بار پھر ثابت کر دیتے ہیں۔
آپ کسی معاملے پہ اختلاف کر کے اپنی رائے دینے کی کوشش تو کر لیں پھر ذرا خود ساختہ فلاسفر حضرات کا رویہ دیکھیں۔
ہم جس طرح سے حقیقی طور پر ہوتے ہیں سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹس اس سے قدرے مختلف کرتے ہیں۔ یعنی ہمارے قول و فعل میں خوب تضاد نظر آئے گا۔
دوغلے پن کے حوالے سے السلام میں بھی سخت ممانعت ہے۔
مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں “دوغلے پن سے بچو کیونکہ دوغلے شخص کا خدا کے نزدیک کوئی مقام نہیں ہوتا”۔
ہر کامیاب شخص پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اسی طرح لوگوں کی جانب سے مشہور اور بڑے انسانوں کے زندگی اجیرن بھی خوب بنائی جاتی ہے یعنی انکے خلاف پروپگنڈا بھی خوب اور تیزی سے پھیلایا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے اس رویے کو بھی درست کرنا ہوگا کوئی کامیاب ہوا ہے تو اسکی سالہا سال کی محنت ہے۔ آپ کے چند بول کسی کے پورے کیئریر کو داو پے لگا دیتے ہیں۔ مگر بحثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ مظبوط ہونا چاہیے کہ عزت دینے والی ذات رب تعالی کی ہے۔ قومیں تو اپنے ہیروز کی قدر کرتی ہیں مگر ہم ذرا سی بات پہ ہیرو کو زیرو بنانے کے کیے کوششیں شروع کر دیتے ہیں، اور قوم نہیں ہجوم ہی ایسا کرتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہمیں اپنی ہر بات کو جسٹیفائی کرنے کے لیے مظبوط دلائل کا سہارا لینا پڑتا مگر یہاں ہم لائک اور فالور کے چکر میں بہتان تراشی کو فروغ دینا شروع کر دیتے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی نے کیا خوب فرمایا تھا کہ ” اپنی آواز کی بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجیے، پھول بادل کے گرجنے سے نہیں بلکہ برسنے سے اگتے ہیں”۔
یہ حقیت ہے کہ آپ کے الفاظ جو آپ بولتے ہیں یا لکھتے ہیں وہاں سے آپ کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کس پائے کے انسان ہیں آپ کے اخلاق کس قسم کے ہیں سقراط کے سامنے ایک شخص انتہائ خوبرو اور اعلی لباس پہنے آیا سقراط نے اس سے کہا “کچھ بولیے تاکہ آپ کی قابلیت معلوم ہو۔۔۔” دلائل کی اہمیت واضح کرنے کے لیے سقراط نے کیا خوب کہا تھا کہ “بدترین بیماری جو کسی انسان کو لاحق ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دلائل سے نفرت کرنے لگ جائے”۔
بہر حال ہمیں اپنے رویوں میں مثبت پہلو شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نیگیٹیویٹی پھیلا کر ہم معاشرے کیلیے کیسے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ہمیں وہ تمام اقدار درست کرنی ہیں جو ہمارے لیے ایک قوم بننے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ قوت برداشت کی کمی بھی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے یہاں تک کہ دلیل نہ ہونے پہ ہاتھ اٹھانے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔
مثبت رہیے مثبت رویوں کو فروغ دیجئے اور ہجوم سے قوم بننے کے لیے کم از کم اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیجئے پھر نتائج دیکھیے گا۔
Twitter Handle:
محمد عمر فاروق
ضروری نوٹ
الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔
Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com
Add Comment