معاشرہ

اوپر کی کمائی

corruption
corruption money

ہمیں زور مرہ سننے کو ملنے والے جملوں میں ایک عام جملہ “اوپر کی کمائی “ بھی ہے۔

جس کا مطلب کہ کوئی آدمی اپنی طے شدہ آمدن سے زیادہ کمائی کر رہا ہے وہ کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں کام کرنے والا ہو سکتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ہم نے اس گناہ کو حقیر سمجھ کر اتنا عام کر دیا ہے کہ نہ ہمیں سننے میں برا لگتا ہے اور نہ ہی بتانے میں ہمیں برا لگتا ہے ۔ بتانے والا سرِعام بتا رہا ہوتا ہے کہ میری اتنی آمدن ہے اور اتنی اوپر سے کما لیتا ہوں اور میرا گزارہ اچھے سے ہو جاتا ہے۔ اور سننے والا بھی “الحمدللّٰہ چلو گزارہ ہو رہا ہے”کہہ دیتا ہے۔

اس برائی کا اس طرح سے معاشرے میں عام ہو جانے کی وجہ سے ہم اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے ۔ بلکہ کچھ تو اسکو اپنا حق سمجھ لیتے ہیں۔

جبکہ جانے انجانے ہم اتنا بڑا گناہ کر رہے ہوتے ہیں کہ جس کی پکڑ سے ہمیں نہ تو ہمارے نیک اعمال بچا سکتے اور نہ کوئی نسبت ہمارے کام آئے گی۔

عام طور پر جب ایک آدمی  چوری کرتا ہے تو اسے چور سمجھ کر لوگ الگ ہو جاتے ہیں۔ یا کوئی دھوکے سے کسی کا مال ہتھیا لیتا ہے تو اسے فراڈ سمجھ کر لوگ اس سے بچتے ہیں جبکہ ناجائز مال بنانے والے کو کوئی نہ تو چور سمجھتا ہے اور نہ ہی دھوکے باز سمجھ کر اس سے الگ ہوتا ہے۔

حالانکہ چور صرف  اس فرد کا مجرم ہوتا ہے جس کا مال چوری ہوا اب قیامت والے دن اللہ تعالٰی اس بندے کو اختیار دے گا کہ وہ اس مجرم سے بدلہ لے۔

اور اوپر سے کمانے والے کا حال اس سے کئی گنا بدتر ہو گا کیونکہ وہ کسی ایک شخص کا مجرم نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کا گنہگار ہوتا ہے۔  اس نے اگر ایک روپیہ بھی ناجائز طریقے سے کمایا ہے تو اس کا بدلہ کوئی ایک شخص نہیں لے گا بلکہ اگر وہ ایک روپیہ سرکاری خزانے سے چرایا گیا ہے تو وہ اس پورے ملک کی عوام کی ملکیت تھا اب قیامت کے دن اس ایک روپے کا بدلہ ملک کا  ہر شخص اس سے لے گا ۔

اور قیامت سے پہلے اللہ تعالٰی اس کو عذاب میں مبتلا کرے گا اس سلسلے میں ہمیں صحیح بخاری میں ایک روایت ملتی ہے کہ ۔

رسول اللہ ﷺ اصحاب کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ میں دیا تھا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر ان کے لگا۔ لوگوں نے کہا مبارک ہو: شہادت! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک دوسرے صحابی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی جہنم کا تسمہ بنتا۔

صحيح البخاري #4234

اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نماز ، جہاد ، رسول اللہ ﷺ کا قرب اور خدمت اتنے صالح اعمال کے باوجود بیت المال سے چرائی گئی ایک چادر کے سبب وہ اللہ تعالٰی کی پکڑ سے نہ بچ سکا ۔

یاد رہے۔۔!  سب سے زیادہ خطرناک وہ گناہ ہوتا ہے جسے انسان گناہ ہی نہ سمجھے اور وہ برائی معاشرے میں رواج بن جائے ۔

ہمیں اپنے ادرگرد سینکڑوں ایسے واقعات ملیں گے جس میں ہمارے جاننے والے ہمارے عزیز و اقارب اس گناہ کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں اور ہم بھی انجانے میں ان کی تائید کر رہے ہوتے ہیں ۔

ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے اور خود کو تیار کرنا ہے کہ ہم اس “اوپر کی کمائی “ کا اوپر جا کر کیا جواب دیں گے۔

یہ  “اوپر کی کمائی “ ہمیں جہنم کے گڑھے میں کتنا نیچے لے کر جا رہی ہے۔

+ posts

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

Tayyib Shabbir

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.