آج بروز بدھ ٢٣ جون ٢٠٢١ میرے والد صاحب کی پہلی برسی ہے، سمجھ نہیں آرہا کہاں سے شروع کروں کہاں ختم۔ باپ اولاد کی پرورش میں اس قدر تگ و دو میں مصروف ہوتا ہے کہ اسے احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ اولاد سے کروڑہا محبتوں کے باوجود ان دونوں کے درمیاں ایک رکھ رکھاو پیدا ہوجاتا ہے، بے تکلفی میں کمی رہ جاتی ہے، لیکن اسکا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ باپ اولاد سے محبت نہیں کرتا۔ اوروں کا پتہ نہیں لیکن میرا تعلق باپ سے ایسا ہی رہا۔ بچپن میں گلے لٹک جاتے تھے بعد میں صرف عید یا تقاریب پر ہی گلے لگتے، سچ پوچھیں تو کبھی سوچتے بھی نہیں کہ ایک دن جب باپ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا، ہم شائید ماں اور باپ دونوں کو اس دنیا کا ابدی مسافر سمجھتے ہیں کہ یہ کہاں جائینگے ہمیں چھوڑ کر۔
پچھلے سال رمضانوں کے ابتدائی حصہ میں والد صاحب کو لقوی ہوگیا اسکا علاج شروع کیا کچھ دنوں میں بہتری ہوئی، دمہ اور سی او پی ڈی پیشنٹ تھے لیکن رمضان میں رچ کے بے احتیاطی کرتے دہی اور شربت کے استعمال سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ ہم بھی کبھی نہیں کہتے کہ جوانی انتہائی سختی میں گزاری اب شوق پورے کررہے ہیں کھانے پینے کا۔ رمضان کے بعد سانس لینے میں مسئلہ ہوا تو کووڈ کا ڈر ڈاکٹر کو چیک کرایا اس نے ہر سال ہونے والا دمے کا اٹیک قرار دیا دوائیں دیں، کچھ دن میں ٹھیک ہوگئے، اس دوران شوگر بھی سامنے آگئی کیونکہ پاوں میں زخم تھا جو ٹھیک نہیں ہوپارہا تھا۔ ڈاکٹر نے ازراہ مذاق کہا انکل دوا نہیں کھائینگے تو ٹانگ کاٹنی پڑیگی۔ یہ سن کر کراچی سے کینیڈا تک سب رشتےدروں کو کال کر کے بتادیا کہ میری ٹانگ کٹ رہی ہے۔ ٢٠ جون کو دوبارہ طبعیت خراب ہوئی ڈاکٹر کے پاس لے گیا وہں ایک خالو اور دو خالہ اور ایک ماموں اتفاقًا آئے انکو زبردستی گھر لیکر آئے ہلہ گلہ ہوا۔ ٢١ جون سے کھانا پینا چھوڑ کر سونا شروع ہوگئے۔ کیونکہ میرےوالد صاحب سونے کے حوالے سے خاندان بھر میں مشھور تھے لہذا ہم نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ٢٣ جون کی صبح ناشتہ کرایا چائے کا کپ ہاتھ سے چھٹ گیا ڈاکٹر کے پاس چلنے کا کہا تو منع کردیا تو میں اکیلا گیا اسکو بتایا اس نے دوائیں تبدیل کی وہاں سے آفس چلا گیا، آفس مں دل نہیں لگ رہا تھا دن میں چھٹی لیکر گھر آگیا امی نے بتایا کہ ناشتے کے بعد نہا کر سوگئے تھے ابھی کھانے کیلیے نہیں اٹھ رہے۔ میں نے بٹھا کر بسکٹ کھلانے چاہے تو بمشکل ایک دو کھائے اس دوران انکی حالت ٹھیک نہ لگنے پر بھائیوں کیساتھ یسپاٹل لے گیا۔ ہسپتالوں کیرودواد علیحدہ ہے۔ انکا بلڈ پریشر ہائی اور سانس کا تناسب گرشکا تھا۔ اچانک آئی سی یو کا دروازہ کھلا بڑے بیٹے ہونے کے ناطے اندر بلایا اس دوران دعا کرتا رہا کہ کچھ نہ ہوا ہو۔ لیکن ابو چلے گئے۔
آپ سب سے کہونگا اپنے باپوں کو آج ہی گلے لگالیں، کل کا پتہ نہیں۔ باپ بہت مظلوم شخصیت ہوتی ہے نہ اظہار کرتی ہے نہ محبت کم کرتی ہے۔ اگر آپ کے پاس دونوں ہیں تو بس انکے قدموں مین بیٹھ جائیں۔ ورنہ بعد مین صرف آنسو۔
تحریر: علی مرتضی ہاشمی
ٹویٹر ہینڈل
علی مرتضی ہاشمی
ضروری نوٹ
الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔
Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com
اللہ تعالٰی صبر جمیل عطا فرمائیں۔ آمین
اور جن کے والدین حیات ہیں ، انکو خدمت کرنے کی سعادت عطا فرمائیں.۔آمین ثم آمین
اللہ رب العزت آپ کے والد صاحب کے درجات بلند کرے۔ آمین
جن کے والدین حیات ہیں ان کو مالک کریم صحت و تندرستی والی لمبی عمر دے۔ آمین ثم آمین
جوانی میں ہی باپ کے سائے کا چھن جانا کیا ہوتا ہے یہ جانتے ہوئے صرف یہی دعا رہتی ہےہر وقت کے مالک یہ درد کسی اور کو دینے سے دینے سے پہلے انکا دل پہاڑ کر دے انکو اتنا مصروف کر کے کبھی یاد کرنے کا ٹائم نا ملے۔
اور اللہ جو والدین اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں انکے درجات بلند کر اعر انکے اولاد کو نیک بنا تاکہ انکے لئے مغفرت کا سبب بن سکیں۔