ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنزل ذوالفقار بابر نے کہا ہے کہ پاک ، افغان سرحد پر پاک فوج کے ریگولر دستے تعینات ہیں اور غیر قانونی کراسنگ پوائنٹ سیل کر دیے گئے ہیں ۔ افغانستان کی صورتحال کے باعث پاکستان میں دہشت گردوں کے سلیپر سیلز دوبارہ فعال ہونے کا خدشہ ہے ۔ دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں انکی کڑیاں افغانستان سے ملتی ہیں کیونکہ افغانستان کی حالیہ صورتحال کے باعث وہاں پر دہشت گرد شدید دباؤ میں ہیں ، کہ ہم افغانستان میں امن عمل کے ضامن ہیں ، افغانستان کے شراکت داری میں ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ ہم اس حقیقت سے انکارنہیں کر سکتے کہ افغانستان کی خراب صورتحال کا براہ راست شکار سب سے پہلے پاکستان ہوتا ہے ، افغانستان میں امن وامان کے حوالے سے صورتحال انتہائی نازک موڑ میں داخل ہو چکی ہے ، پاک فوج کے ترجمان نے واضح الفاظ میں اسی حقیقت کی نشاندہی کی ہے ۔ پاکستان نے حالیہ کچھ عرصے سے اس خطے کے لیے اپنی پالیسی میں تبدیلی جیواسٹریجک کی جگہ جیو اکنامک کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے لیکن افغانستان میں افراتفری اس کے یہ اہداف مشکل بنارہی ہے اور مستقبل قریب میں سامان کی آمد ورفت ممکن نہیں رہے گی اور علاقائی تجارت سے پاکستان فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ۔ پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے خالی پڑے سوال یہی ہیں کہ ان تمام منفی اثرات سے وہ اپنے آپ کو کیسےمحفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو ملک کے ایک بڑے حصے پر افغان طالبان قابض ہو چکے ہیں ، صرف کابل بچا ہوا ہے وہ بھی کتنے دن تک ؟ افغان فوج ایک علامتی فوج ہی محسوس ہوتی ہے ، امریکا فوج نے افغانستانی فوج کو صرف اندرونی معاملات کو سنبھالنے کی ذمہ داری دی ہوئی تھی. لیکن ایک بڑی تعداد میں امریکہ فوجی، افغانستان میں رکھنے کے باوجود جب امریکا بھی کچھ نہیں کر سکا تو افغان فوج سے توقعات رکھنا کہ وہ امریکی انخلا کے بعد سیکیورٹی معاملات کو سنبھال لے گی خام خیالی سے زیادہ اورکچھ نہیں ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نہ اشرف غنی حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور نا طالبان کوئی ایسی رعایت دینے کے لیے تیار ہیں ، جو ان کی تحریک اور نظریے سے مطابقت نہ رکھتی ہو ۔ وہ بڑے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ انھیں امارت اسلامیہ افغانستان بنانی ہے ۔ گو افغان طالبان نےامریکیوں سے معاہدے میں وعدہ کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ ایسے میں ٹی ٹی پی کے خاموش رہنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن اگر ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان میں دوبارہ متحرک ہوتی ہے تو پاکستان بلاشبہ طالبان حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے گا ۔ ایسے میں افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کا امکان حد درجہ کم ہے ، وہ دباؤ اور بات چیت کے ذریعے ان کو خاموش رہنے پر شاید آمادہ کر لیں ، یہ ایک رائے ہوسکتی ہے جب کہ ایک اور حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ افغان طالبان جیسے ہی پورے افغانستان پر اقتدار قائم ہو جائے گا تو پاکستانی طالبان کو افغان سرزمین سے دوبارہ استعمال نہیں کیا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کی جانب سےپاکستان پر لگائے گئے الزامات پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اتنی جدوجہد نہیں کی گئی ہے ۔ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا غیر منصفانہ ہے ۔ وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان امن میں شراکت دار ہے ۔ افغانستان میں بدامنی جاری ہے ، صوبہ تخار میں اب تک 12 ہزار خاندان بے گھر ہو چکے ہیں ، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنوری سے اب تک 2 لاکھ 70 ہزار افغانی نکل مکانی پر مجور ہوئے ہیں ، جس کے بعد بے گھر افراد کی تعداد 35 لاکھ تک پہنچ گئی ہے ۔ اس وقت افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات ابھر کر سامنے سامنے آ رہے ہیں ، خانہ جنگی ہوئی تو پانچ سے سات لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں تاہم مہاجرین کو ایرانی طرز پر بارڈر کے قریب کیمپوں میں رکھا جائے گا جب کہ ٹی ٹی پی میں پاکستان دشمن لوگ مہاجرین کی شکل میں بھی آسکتے ہیں لہذا انھیں روکنا ضروری ہے ۔ اس حوالے سے پہلے کی گئی غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کرتے ہوئے مہاجرین کو سرحدی علاقوں میں بسانے کی تجویز صیح ہے لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس پر عملدرآمد کے خدشات شاید بے وجہ نہ ہوں ۔ دنیامیں مہاجرین کی میزبانی کا جو معروف طریقہ ہے اور ہمسایہ ممالک نے اس حوالے سے قبل ازیں جوطریق کار اختیار کیے رکھا ہوا ہے وہ پاکستان اور اس کے عوام کے مفاد میں ہے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت بھی مہاجرین کے طور پر آنے والے لاکھوں افراد پاکستانی شہریوں کی طرح نہ صرف شہروں میں رہ رہے ہیں بلکہ بغیر ٹیکس کے کاروبار بھی کر رہے ہیں ، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں بھی مقامی افراد کے مساوی ہی گردانے جاتے ہیں اگر مزید سات لاکھ کو جو کہ ایک تخمینہ ہے اس کا دوگنا بھی آسکتے ہیں. افغانستان کا تقریبا ہر دوسرے شہری کا پاکستان اور بیرون ملک منتقل ہونے میں جتن کی اطلاعات ہیں ۔ (
تحریر: ملک صادق حسین کھتری
Malik Sadique Hussain Khatri is a Freelance Column writer, also has journalist & Social Media Activist. He has written Articles about people, Walfare works, politics, Sports . Her nonfiction articles have been published online in magazines around the country. He is a regular contributor on http://alifnagri.net
Find out his Work on his Twitter account @im_shkhatri
ضروری نوٹ
الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔
Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com
Add Comment