اسلامی تاریخ

سلطنت عثمانیہ کا وارث

Ottoman

عثمان کے بڑے بیٹے کا نام اورخان تھا جو اپنے والد کی وفات کے بعد 726ھ بمطابق 1327ء کو تخت نشین ہوا۔حکومت اور فتوحات میں اپنے والد کی پالیسی کو اختیار کیا 727ھ کو اس کے ہاتھوں نیقو میدیا فتح ہوا۔ یہ استنبول کے قریب ایشیائے کوچک کے شمال مغرب میں واقع ایک شہر ہے جس کا موجودہ نام ازمیت ہے اورخان نے یہاں پہلی عثمانی یونیورسٹی قائم کی اور داؤد قیصری کو اسکا پرنسپل مقرر کیا جو عثمانی علما میں بڑی شہرت رکھتے تھے انہوں نے مصر سے علوم کی تحصیل کی تھی۔
اورخان نے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ایک لشکر بھی تشکیل دیا اور اسے مستقل لشکر کی حیثیت دی۔
سلطان اورخان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کو پورا کرنا چاہتے تھے جو آپ ص نے فتح قسطنطنیہ کے بارے میں دی تھی۔ انہوں نے ایک نہایت ہی اہم حکمت عملی ترتیب دی جس کے مطابق بیزنطینی دارالحکومت کا یکبارگی مشرق و مغرب دونوں طرف سے محاصرہ کرنا تھا اس منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے اورخان نے اپنے بیٹے اور ولی عہد سلیمان کو بھیجا کہ وہ تنگ نائے درد نیل کو عبور کر کے  بعض گوشوں میں مقامات پر قبضہ کر لیا۔
758ھ میں سلیمان نے چالیس مسلمان گھوڑ سواروں کے ساتھ اس تنگ نائے کو عبور کیا مغربی کنارے پہنچ کر لنگر اندوز رومی کشتیوں پر قبضہ کر لیا اور انہیں مشرقی کنارے لے آیا۔وجہ یہ تھی کہ عثمانیوں کے پاس اس دور میں بحری بیڑا نہیں تھا کیونکہ انکی سلطنت ابھی ابتدائی مراحل میں تھی مشرقی کنارے پہنچ کر سلیمان نے اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ وہ ان کشتیوں پر سوار ہو کر یورپی ساحل پہنچ جائے سو ایسا ہی ہوا۔مسلمانوں نے یورپی ساحل پر پہنچ کر قلعہ ترنب کی بندرگاہ غالیبولی جس میں قلعہ جناقلہ، ابسالا اور رودستور واقع تھا ان پر قبضہ کر لیا یہ تمام شہر اور قلعے تنگ نائے “دودنیل”  پر واقع تھے اور جنوب سے شمال کی طرف تک پھیلے ہوئے تھے اس طرح سلطان نے بہت بڑا اقدام کیا جس سے ہر اس شخص کو فائیدہ پہنچا جس نے فتح قسطنطنیہ کے لئے محنت کی تھی۔

جدید لشکر کی تاسیس – ینگ چری

سلطان اورخان کی زندگی کا اہم کارنامہ اسلامی لشکر کی تاسیس اور اسے ایک خاص فوجی نظام کا پابند بنانے کے لئے منصوبہ بندی تھی۔ یہ لشکر کئی یونٹوں میں منقسم تھا ہر یونٹ میں دس، سو یا پھر ہزار سپاہی تھے مال غنیمت کا پانچواں حصہ لشکر پر خرچ ہوتا تھا۔ یہ ایک باقاعدہ فوج تھی۔ اس سے پہلے صرف جنگ کے لئے لوگ رضا کارانہ طور پر شریک ہوتے تھے۔ کسی باقاعدہ فوج کا انتظام نہیں ہوا کرتا تھا۔ اورخان نے فوج کے لئے چھاؤنیاں بنائی جہاں انہیں جنگ کی ٹریننگ دی جاتی تھی .
انہوں نے ایک اور لشکر کا بھی اضافہ کیا جو  انکشاریہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا اس میں ان نو مسلموں کو بھرتی کیا گیا جو سلطنت کے وسیع ہونے کی وجہ سے عثمانی شہری بن گئے تھے۔ اور غیر مسلم اور اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ جنگ میں مسلمانوں کی کامیابیوں اور مفتوحہ علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اسلام میں داخل ہو جانے کی بدولت کافی تعداد میں اسلامی قلم رو میں آباد تھے۔ اورخان نے انہیں اسلامی سپاہ میں شمولیت کی دعوت دی اور اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں انکی خدمات حاصل کی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان نو مسلموں کو دینی تعلیم دی جاتی تھی۔اور جب انکی فکری اور حربی تعلیم مکمل ہو جاتی تو انہیں مختلف جہادی مراکز میں بھیج دیا جاتا تھا .
جنگوں اور معرکوں کی وجہ سے بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے والدین سے بچھڑ گئی تھی۔ مسلم حکمران عثمانیوں نے ایسے بچوں کی کفالت کا زمہ لیا ان کے روشن مستقبل کی ضمانت انہیں مہیا کی 
اورخان نے جو جدید لشکر تشکیل دیا درحقیقت وہ ایک با ضابطہ لشکر تھا جو ہر وقت قطع نظر حالت جنگ و امن اپنی چھاؤنیوں میں تیار رہتا تھا اس لشکر میں شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ اس گروہ کے مجاہدین جو ہر وقت جہاد کی دعوت دینے والی کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اور امراء روم اور ان کے لشکری جن کے دل میں اسلام کا نور چھایا ہوا تھا اور وہ بہت اچھے مسلمان تھے سب شامل تھے اورخان جونہی اس لشکر کی تنظیم سازی سے فارغ ہوا تو فورا ایک عالم دین جو نہایت پارسا صاحب یقین و تقوی تھے کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعائے خیر کی درخواست کی. 
یہ عالم ربانی الحجاج بکتاش تھے یہ عالم دین بادشاہ سے مل کر بہت خوش ہوئے ایک سپاہی کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا کی اللہ تعالیٰ انہیں سرخرو کرے۔ ان کی تلواروں میں تیزی اور کاٹ پیدا کرے اور انہیں ہر معرکے میں کامیابی سے ہمکنار کرے جس میں وہ اللہ کی  خوشنودی کے لئے اترے۔ پھر وہ عالم دین اورخان کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا آپ نے اس لشکر کا کوئی نام بھی رکھا ہے یا نہیں بادشاہ نے عرض کیا حضور اس کا میں نے کوئی نام تجویز نہیں کیا انہوں نے فرمایا اس کا نام ینگ چری ہے یعنی نیا لشکر. 
اس نئے لشکر کا جھنڈا سرخ کلر کا تھا جس پر ہلال بنا ہوا تھا ہلال کے نیچے تلوار کی تصویر تھی جس کو یمن و برکت کے لئے ” ذوالفقار ” کا نام دیتے تھے ذوالفقار حضرت علی رضی کی تلوار کا نام تھا 
جب بیزنطینوں کے ساتھ مقابلوں کا سلسلہ دراز ہو گیا اور جہادی زمہداریاں بڑھ گئی تو اس نئے لشکر میں بھی اضافہ کر دیا گیا سلطان نے ترک اور ان بیزنطینی جوانوں کا انتخاب کیا جو مسلمان ہو چکے تھے اور ان کا کردار اچھا تھا اور انہیں نئے لشکر میں بھرتی کر دیا گیا۔ پھر انکی اسلامی اصولوں پر جہادی تربیت کی اور یوں نئے لشکر کی تعداد بڑھ کر کئی ہزار مجاہدین تک پہنچ گئی.
اورخان اور علاء الدین اس بات پر متفق تھے کہ نئے لشکر کی تشکیل کا مقصد اور ہدف بیزنطینوں کے خلاف سلسلہ جہاد کو قائم رکھنا اور اسلام کی نشرو اشاعت کے لئے ان علاقوں کو زیادہ سے زیادہ اپنی قلم رو میں شامل کرنا تھا اور ان بیزنطینوں سے استفادہ کرنا ہو جو مسلمان ہو چکے تھے نیز ان نو مسلموں کو اسلامی جہاد کی تربیت دینا اور ان کے دلوں میں اسلامی تہذیب کا شوق اور جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔ 

اورخان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی:

اورخان کے تمام غزوات رومیوں کے خلاف تھے لیکن 736ھ بمطابق 1336ء میں قرہ سی کے امیر کا واقعہ پیش آیا قرہ سی ان امارات میں سے ایک تھی جن کی بنیاد سلاجقہ روم کی سلطنت کے کھنڈرات پر رکھی گئی تھی۔ والد کی وفات کے بعد بھائیوں میں سلطنت کے لئے نزاع پیدا ہوا۔ اورخان نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس امارت پر قبضہ کر لیا۔ یہ بات نوزائدہ دولت عثمانیہ کے اہداف میں شامل تھی کہ ایشیائے کوچک میں سلاجقہ روم کی سلطنت کی وراثت حاصل کی جائے۔ اور جو علاقے ان کے زیر نگیں رہ چکے ہیں ان پر قبضہ حاصل کیا جائے اسی وجہ سے محمد فاتح کے دور حکومت تک ان کے اور دوسری امارتوں چپقلش چلتی رہی حتی کہ پورا ایشیائے کوچک عثمانی سلطنت میں شامل ہو گیا قرہ سی کی امارت پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد اورخان نے بیس سال تک کسی دوسرے علاقے پر  چڑھائی نہ کی۔ بیس سال کا یہ عرصہ ملکی نظم ونسق کو بہتر بنانے، شہروں کے انتظامی امور کو نئے خطوط پر استوار کرنے اور فوجی تنظیم نو میں گزار دئیے اس عرصہ میں اورخان نے ملک کے کونے کونے میں امن عامہ کی صورتحال کو بہتر بنایا۔ مسجدیں تعمیر کی۔ ان کی ضروریات کے لیے محکمہ اوقاف تشکیل دیا۔ اور ایسے وسیع ادارے بنائے جو اورخان کی عظمت شان، تقوی اور دانائی کا پتہ دیتے تھے انہوں نے اپنی سلطنت کی توسیع کے لئے جنگ پر جنگ کرنے کی پالیسی اختیار نہیں کی بلکہ اپنے زیر نگیں علاقوں میں حکومتی استحکام کے حریص رہے اور ہر وہ علاقہ جو فتح کیا اس پر شہری عسکری، تربیتی اور ثقافتی چھاپ لگانے کی کوشش کی اسی وجہ سے ہر نئی زمین ان کا اٹوٹ انگ بن گئی اور باہمی اتحادویگانگت کی وجہ سے ایشیائے کوچک میں  عثمانی سلطنت کے علاقے  ایک مثال بن گئے۔  
اورخان داخلی امن و استحکام سے فارغ ہوا کہ تھا کہ دولت بیزنطینہ کے اندر حکومت کے بارے جھگڑا پیدا ہو گیا۔ اور شہنشاہ کونتا کوزینوس نے اپنے مخالف کے مقابلے میں اورخان سے مدد طلب کی سلطان کے لئے یہ بہت اہم موقع تھا۔ انہوں نے یورپ میں عثمانی نفوذ کو مستحکم کرنے کے لئے اپنی فوجیں روانہ کر دی 1358 میں تراقیا کے شہر میں زلزلہ آیا اور اس زلزلے نے غالیبولی کی دیواریں ہلا کر رکھ دی جس کی وجہ سے یہاں کی ابادی یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور چہو گئی۔ عثمانیوں کے لئے اب اب شہر میں داخل ہونا اسان ہو گیا تھا۔ بیزنطینی شہنشاہ نے بہت احتجاج کیا مگر بے سود۔ اورخان نے جواب دیا عنایت ربانی نے شہر کے دروازے اسکی فوج پر وا کردئیے ہیں اور کچھ کی عرصہ میں غالیبولی کا شہر یورپ میں عثمانیوں کا ہر اول دستہ بن گیا وہ اولین حملے جو جزیرہ نمائے بلقان کی فتح پر منتج ہوئے اسی شہر سے کئے گئے تھے۔
جب حنا پنجم بالیولو جس بیزنطہ کا واحد حکمران بنا تو اس نے یورپ میں سلطان کی تمام فتوحات کو تسلیم کر لیا اس شرط پر کہ سلطان قسطنطنیہ تک رسد اور خوراک پہنچنے کو آسان بنائے گا اورخان نے بہت سے مسلمان قبیلوں کو ان علاقوں میں اس لئے بھیجا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرے۔اور یورپ سے عثمانیوں کے انخلاء کو نصرانیوں کے لئے نا ممکن بنا دے۔ 

جن عوامل کی بدولت اورخان اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا:

1) اورخان کا مرحلہ وار آگے بڑھنا اور آہنگ والد عثمان کی کوششوں سے استفادہ کرنا۔
نیز مادی اور معنوی امکانات کی موجودگی جو اناضول کے علاقوں پر فتح اور ان پر عثمانیوں کے تسلط پر معاون ثابت ہوئے۔ اورخان کی کوشیش امتیازی حیثیت رکھتی ہیں اس نے اپنی سلطنت کی توسیع کے لئے جو اقدامات کئے وہ مرحلہ اور اور فیصلہ کن تھے۔ عالم میسیحت کو اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ یہ سلطنت یورپ کی طرف بڑھ رہی ہے انہیں اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب مسلمانوں نے سمندر کو عبور کیا اور غالیبولی پر قبضہ کر لیا۔
2) بلقانیوں اور عثمانیوں کے درمیان جو دو روبرو  لڑائیاں ہوئیں اس میں عثمانیوں کو امتیاز حاصل تھا وہ بھی انکی کامیابی کا ایک اہم محرک تھا عثمانیوں کی صفوں میں اتحاد تھا دینی اور فکری لحاظ سے ایک تھے۔ یورپی فوج سنی مذہب پر یقین رکھتی تھی 
3) بیزنطینی سلطنت مرحلہ اضمحلال میں تھی۔ بیزنطینی معاشرہ سیاسی انتشار اور دینی و معاشرتی گراوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ سو اس چیز نے اس سلطنت کو اپنی سلطنت میں شامل کرنا عثمانیوں کے لئے آسان بنا دیا۔
محمد سمیع اللہ ملک
محمد سمیع اللہ ملک
+ posts

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

محمد سمیع اللہ ملک

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.